لاکھ آفتاب ڈوبے تو نکلا وہ ماہتاب

ضو پاشیوں سے جس کی ہے ہر ذرہ بہرہ یاب

خلّاقِ دو جہاں کا ہے وہ حسنِ انتخاب

آئے کہاں سے حسنِ محمد کا پھر جواب

اس رخ پہ ہیں نثار جو صد ماہ و آفتاب

سیرت بعینہٖ ہے وہ تفسیرِ اَلکتاب

قرآں کہ آنحضور سے ہو جس کا انتساب

‘لارَیبَ فیہ’ ہے صفتِ ذٰلکَ الکتاب

جو ہے خُمِ حجاز میں توحید کی شراب

ساقی کا اذن ہے کہ پئیں رند بے حساب

بحرِ علومِ معرفتِ حق ہے ان کی ذات

تا حشر چنتے رہیے لٹائے وہ دُرِّ ناب

ہر چند بے نیاز ہے ذاتِ خدا مگر

ان کی زباں سے بندوں کو برسوں کیا خطاب

اسرا کی شب گواہ ہے میرا خدا گواہ

جلوہ فگن ہوئے ہیں سرِ عرش بھی جناب

در بارگاہِ ربِّ دو عالم ہوں ملتجی

اک دن کرے مجھے بھی ترے در پہ باریاب

جائے پنہ نظرؔ کی لِوائے محمدی

اے روزِ حشر مجھ میں نہیں طاقتِ حساب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]