لندن

شام کے وقت خُنک دُھند میں لپٹا ہوا شہر
دُور آفاق کی وُسعت میں کہیں
مضحمل چاند تھکے ہارے مسافر کی طرح
مرحلہ وار تھکن سہتا ہوا
ابرِ آوارہ سے کچھ کہتا ہوا

شہر والوں کی نگاہوں میں عیاں
عظمتِ رفتہ کے گم گشتہ چراغ
گلی کوچوں میں اُسی سلطنتِ عہدِ گذشتہ کے نشاں
جو کراں تا بہ کراں پھلی تھی
جس پہ سورج نہیں ہوتا تھا غروب
!رہ گیا ایک جزیرہ، کیا خوب

ٹیمز دریا کی جنوں خیز روانی میں کہیں
رُخ ِ ماہتاب کا رقص
سانولے رنگ کے پانی میں کہیں
سرمئی شام کا عکس
اور دریا کے کنارے پہ کسی بینچ کے پاس
میں تری یاد میں گُم
اپنی خاموش اُداسی کو بدن پر اوڑھے
ہنستے گاتے ہوئے لوگوں سے پرے
شہرِ آباد میں گم

میری خاموش نگاہوں میں عیاں
اپنی اُس سلطنتِ عشقِ گذشتہ کے نشاں
جو تری اور مری ہستی تھی
جس پہ سورج نہیں ہوتا تھا غروب
!رہ گیا داغِ تمنا ، کیا خوب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]