لوگوں نے اس لئے مجھے پاگل نہیں کہا
میں نے کبھی بھی دشت کو جنگل نہیں کہا
اس شخص پہ بھی ہو کوئی تعزیر ، چپ رہا
پر وقت کے حصار کو مقتل نہیں کہا
دریائے عمر ، عمر بھر چلتا نہیں رہا
ساکت ہوا بھی تو اسے دلدل نہیں کہا
اے کم نصیب شخص تو خود کھو گیا کہیں
میں نے تو اپنی آنکھ سے اوجھل نہیں کہا
آنسو بہے بھی تو نہیں دریا کہا انہیں
آنکھوں میں اترے کرب کو بادل نہیں کہا
ترسے ہوئے ہیں کان اس آواز کے لئے
مدت ہوئی ہے آپ نے کومل نہیں کہا