لگا کے داؤ پہ رکھنا یہ نیک نامی مری
تھی بدمزاج طبیعت کی پہلی خامی مری
گئی تھی دیکھنے میں رونقِ عدم آباد
وہاں پہ لکھ دی گئی شہریت مقامی مری
کہیں پہ رونا ہو ، میں قہقہے لگاتی ہوں
یہ کار روائی ہے اے شخص انتقامی مری
میں اپنی روشنی جس روز آشکار کروں
چراغ کرنے لگیں گے ترے ، غلامی مری
بس ایک وار میں بازو کٹا کے بیٹھی ہوں
مری شکست کا باعث تھی بے نیامی مری
میں ایک طشت میں لائی ہوں رکھ کے اپنی انا
قبول آپ کریں بھینٹ اب سوامی مری
پھر آج عالم وحشت میں اتنا بولی ہوں
ہر ایک شخص نے سن لی ہے خودکلامی مری