لگا کے داؤ پہ رکھنا یہ نیک نامی مری

تھی بدمزاج طبیعت کی پہلی خامی مری

گئی تھی دیکھنے میں رونقِ عدم آباد

وہاں پہ لکھ دی گئی شہریت مقامی مری

کہیں پہ رونا ہو ، میں قہقہے لگاتی ہوں

یہ کار روائی ہے اے شخص انتقامی مری

میں اپنی روشنی جس روز آشکار کروں

چراغ کرنے لگیں گے ترے ، غلامی مری

بس ایک وار میں بازو کٹا کے بیٹھی ہوں

مری شکست کا باعث تھی بے نیامی مری

میں ایک طشت میں لائی ہوں رکھ کے اپنی انا

قبول آپ کریں بھینٹ اب سوامی مری

پھر آج عالم وحشت میں اتنا بولی ہوں

ہر ایک شخص نے سن لی ہے خودکلامی مری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]