مانا کہ عرضِ حال کے قائل نہیں تھے ہم

سمجھے نہ کوئی ایسی بھی مشکل نہیں تھے ہم

کچھ ہو گئیں خطائیں تو معذور جانئے

انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم

اپنے ہی شہر میں ہمیں مہماں بنا دیا

اتنی مدارتوں کے تو قابل نہیں تھے ہم

طوفاں ملے جو ہم سے تو شکوہ نہ کیجئے

اک بحرِ اضطراب تھے ساحل نہیں تھے ہم

مٹ جاتے ایک موجِ گریزاں کے زور سے

نقشِ قدم تو برسرِ ساحل نہیں تھے ہم

ق

ہم اُٹھ گئے تو ہو گئی برہم بساط کیوں؟

اک ہم نشیں تھے رونق محفل نہیں تھے ہم

ہم کھو گئے تو رُک گئے کیوں اہلِ کارواں؟

اک ہمسفر تھے جادۂ منزل نہیں تھے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]