مجھ کو حصارِ حلقۂ احباب چھوڑ کر

صحرا ملا ہے گلشن شاداب چھوڑ کر

ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے

اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر

سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال

دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر

اوج فلک سے گر گیا تحت الثریٰ میں عشق

طوفِ حریمِ ناز کے آداب چھوڑ کر

مسجد کی پاسبانی پر اب آ گئی ہے بات

اٹھنا پڑے گا منبر و محراب چھوڑ کر

ہر چشم زیرِ خواب ہے یا زیرِ بارِ اشک

دیکھوں کسے میں دیدۂ مہتاب چھوڑ کر

نکلے رہو گے دوزخ لیل و نہار میں

کب تک ظہیرؔ جنتِ بیتاب چھوڑ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]