مجھے درد ہجر دے کر نہ تو بیقرار کرنا

مرے بس کا اب نہیں ہے ترا انتظار کرنا

پسِ مرگ اُلجھنوں کا نہ مجھے شکار کرنا

کبھی زُلف کو پریشاں نہ سرِ مزار کرنا

میں تری ادا کے قرباں ، یہ ادا بھی کیا ادا ہے

کبھی مجھ سے رُوٹھ جانا ، کبھی مجھ سے پیار کرنا

دل و جاں سے مٹنے والو مرا مشورہ ہے تم کو

ذرا سوچ کر کسی پر دل و جاں نثار کرنا

مجھے قید کر کے اُس نے کہا مجھ سے یہ قفس میں

نہ غمِ چمن میں رونا ، نہ غمِ بہار کرنا

نہ گھٹا سکے الم کو جو بڑھا دے اور غم کو

نہ اب ایسی غمگساری ، مرے غمگسار کرنا

جو کرے ہے جھوٹے وعدے ، وہ یقیں دلائے پھر بھی

دلِ نا سمجھ نہ اُس کا کبھی اعتبار کرنا

ترا بن سنور کے آںا مجھے یاد کیوں نہ آئے

شب و روز میری خاطر وہ ترا سنگھار کرنا

شبِ ہجر کا وہ عالم ، کروں کیا بیان پُرنمؔ

کبھی کروٹیں بدلنا ، کبھی ذکرِ یار کرنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]