محمد نور ذاتِ کبریا ہے

خدا سے کم ہے اور سب سے سوا ہے

بجز احمد یہ کس کا مرتبا ہے

کہ ہر اک پیشوا کا پیشوا ہے

وہ بحرِ فضل ہے اُس کا کہ جس کے

ہر اک قطرہ میں اک دریا بھرا ہے

وہ اصل مدعا جس کے سبب سے

وجودِ آدم و حوّا ہوا ہے

وہ بحرِ نور جس کا حسنِ طلعت

تجلّی زار انوارِ خدا ہے

وہ شہرِ اعظم علمِ الہٰی

کہ در جس کا علی مرتضیٰ ہے

نہ جس گمراہ کو ہو حُب حیدر

وہ مردُود درِ خیرالورا ہے

مقام قرب ہے قوسین اُس کا

خدا سے گرچہ ظاہر میں جدا ہے

محمد کہتے ہی آتا ہے آرام

عجب یہ نام بھی نامِ خدا ہے

ملایک کس طرح بےاذن آئیں

سمجھتے ہیں درِ خیرالورا ہے

کسی نے کیا لیا نامِ مبارک

لبِ جبریل پر صلِ علیٰ ہے

وہاں ہر مردہ دل ہوتا ہے زندہ

مدینہ کی عجب آب و ہوا ہے

نہیں دشوار اب یثرب کا جانا

محرک شوق طاقت آزما ہے

نگاہِ لطف یا مولا کہ مجروح

تمہارے در کا اک ادنیٰ گدا ہے​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]