مری اداسی کا نقش پا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

یہ غم کی راتوں کو جانتا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

کسی کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے اتر رہا ہے نمی کا بادل

قلم سے کس کے نکل رہا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

شکستہ کاغذ پر آنسوؤں کا بنا ہوا ہے جو ایک تالاب

وہ میری آنکھوں سے بہہ رہا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

اٹھائی کل رات ڈایری اور میں نے کر ڈالی نذر آتش

سو ساتھ اس کے ہی جل گیا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

کہ دل میں جتنی اذیتیں تھیں قلم سے طاہرؔ انہیں لکھا ہے

غزل کی صورت میں ڈھل چکا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]