مطلعِ نور عطا فہم و سخن پر کر دیں

نعت کو اپنی مرے نطق کا محور کر دیں

مزرعِ جاں ہے خزاں دیدہ و بے رنگ مرا

سبز کر دیں اِسے شاداب و تناور کر دیں

روزِ محشر جو مرا نامۂ اعمال کُھلے

تب نعم کہہ کے مرے شہ اسے بہتر کر دیں

آنے والی ہے قضا جانے یہ کب آ جائے

کیا ہی اچھا ہو مدینے میں عطا گھر ، کر دیں

ہوں غلام ابنِ غلام آپ کا، بہرِ توثیق

نقشِ نعلین کو دستار پہ جھومر کر دیں

ایک پھیرا ہو کرم کا مرے گھر بھی کوئی دن

میرے آنگن کو مرے شاہ منور کر دیں

میری ان ہجر زدہ سانسوں کو اے ماہِ مبیں

صدقۂ زلفِ معنبر سے معطر کر دیں

وہ سخی اتنے ہیں منظر کہ خدا سے کہہ کر

تجھ سے بے حرف کو چاہیں تو سخن ور کر دیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]