منتظر تیرے سدا عقدہ کُشا رکھتے ہیں

دلِ زندہ کے لئے حق سے وِلا رکھتے ہیں

گُھٹ کے مر جاتے ترا غم جو نہیں ہوتا نصیب

سانس لینے کے لئے تازہ ہوا رکھتے ہیں

لاشِ قاسم پہ یہ شبیر کی حالت دیکھی

جسم کے ٹکڑوں کو گٹھری میں اٹھا رکھتے ہیں

درِ خیمہ پہ کھڑے سوچ رہے ہیں سرور

ماں نے گر پوچھا کہ آغوش میں کیا رکھتے ہیں

وحشتِ دل نہ بڑھے عالمِ تنہائی میں

اس لئے قبر میں ہم خاکِ شفا رکھتے ہیں

فرشِ ماتم جو بچھاتے ہیں تو اس سے پہلے

فاطمہ کے لئے آنکھوں کو بچھا رکھتے ہیں

نوجواں سینے سے برچھی کو نکالا کیسے

ہائے کیا دولتِ تسلیم و رضا رکھتے ہیں

بس یہی اپنا ہے سرمایہ ہستی تسنیم

درمیانِ نفسِ بیم و رجا رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]