مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

چوپال پہ بوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر

معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی

تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں

خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں

تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ

تنہا ہوں میں کتنا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں اگر رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحط ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ

جگنو کو لیے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]