مہک اٹھے سحر سحر ہیں نکہتوں کے سلسلے

نکھر گئے نگر نگر ہیں مدحتوں کے سلسلے

یہ کس نگارِ خیر کی ثنائے نور نور ہے

کہ حرف سب قمر قمر ہیں طلعتوں کے سلسلے

رہے ہیں رات رات بھریہ کس کے انتظار میں

خیامِ جاں، نظر نظر ہیں رتجگوں کے سلسلے

ترے خیال و خواب میں رہا کروں جیا کروں

نشانِ پا ڈگر ڈگر ہیں منزلوں کے سلسلے

وہی تو نیک نام ہیں مٹے جو تیرے نام پر

زماں زماں بشر بشر ہیں رفعتوں کے سلسلے

ترے ہی ذکرِ نُور کی ہیں برکتیں سمن سمن

چمن چمن شجر شجر ہیں نزہتوں کے سلسلے

غلامئ رسول میں نہاں نویدِ فتح ہے

سفر سفر ظفر ظفر ہیں نصرتوں کے سلسلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]