میرا سفر ہے ضبطِ مسلسل کی قید میں

چھوٹی سی جیسے کشتی ہو بوتل کی قید میں

اپنے بدن کی آگ میں جل کر مہک اٹھی

خوشبو جو بیقرار تھی صندل کی قید میں

اے فصل تشنہ کام نویدِ رہائی دے

پانی کو دیکھ کب سے ہے بادل کی قید میں

گہرائی اُس کے ضبطِ الم کی بھی دیکھئے

ساگر رکھے ہوئے ہے جو کاجل کی قید میں

آوارہ اک ورق تھا، مجھے دے دیا ثبات

اُس نے گرہ سے باندھ کے آنچل کی قید میں

بچپن کے آنگنوں سے بچھڑنے کا دُ کھ ظہیرؔ

آسیب بن کے رہتا ہے پیپل کی قید میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]