میرے سنگ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال

جان کے ساتھ ہے دل ناشاد

موند آنکھیں سفر عدم کا کر

بس ہے دیکھا نہ عالم ایجاد

فکر تعمیر میں نہ رہ منعم

زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں

کس خرابے میں ہم ہوئے آباد

سنتے ہو ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد

نہ سنوگے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم

خاک کس دل جلے کی برباد

بھولا جائے ہے غم بتاں میں جی

غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد

تیرے قید قفس کا کیا شکوہ

نالے اپنے سے اپنے سے فریاد

ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز

باغ ہے گھر ترا تو اے صیاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں کہیں

اپنی قید حیات سے آزاد

ایسا وہ شوخ ہے کہ اٹھتے صبح

جانا سو جائے اس کی ہے معتاد

نہیں صورت پذیر نقش اس کا

یوں ہی تصدیق کھینچے ہے بہزاد

خوب ہے خاک سے بزرگوں کی

چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروت کہاں کی ہے اے میرؔ

تو ہی مجھ دل جلے کو کر ارشاد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ

وہ جلاتا پھرے چراغ مراد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]