میلادِ آنحضور کی تقریبِ عید ہے

تحریکِ نعت در دلِ عبد الحمید ہے

نبیوں میں مصطفیٰ ہی وہ فردِ فرید ہے

جس پر کہ ختم وحی خدائے وحید ہے

وہ جانِ آرزو ہے دلوں کی امید ہے

امت کی مغفرت کے لئے وہ نوید ہے

حلقہ بگوش ان کا ہوا جو سعید ہے

مانا نہ جس نے ان کو جہنم رسید ہے

نازل ہوئی جو ان پہ کتابِ مجید ہے

مستجمعِ علومِ قدیم و جدید ہے

خلقِ خدا پہ آپ کے احساں ہیں اس قدر

دنیا غلام ان کی بنی زر خرید ہے

وہ جلوہ گاہِ رب میں ہیں اسرا کی شب رسا

عرشِ خدا بھی ان کے لئے چشمِ دید ہے

جو اہلِ دل ہیں جان ہی لیں گے مری مراد

اک آرزو ہے دل میں جو بے حد شدید ہے

کوثر کا جام جس کو وہ ساقی عطا کرے

یومِ نشور کیا اسے حاجت مزید ہے

نسخہ درودِ پاک کا انمول مل گیا

عاصی ہو یا ولی ہو ہر اک مستفید ہے

دنیائے خواب ہی میں نظرؔ آئیے کبھی

مشتاقِ دید آپ کا عبد الحمید ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]