میں اپنی زندگی اس شان سے تحریر کرتا ہوں
کہ یوں لگتا ہے جیسے حسن کی تفسیر کرتا ہوں
کسی کی بھی کبھی تقلید بھولے سے نہیں کرتا
جو کچھ دل پر گزرتا ہے وہی تحریر کرتا ہوں
پریشاں میں رہوں دنیا پریشانی سے بچ جائے
ٹھہر اے گردشِ دوراں تجھے زنجیر کرتا ہوں
مری تقدیر کے لکھے پہ دنیا خندہ زن کیوں ہے
کسی سے کیا کبھی میں شکوۂ تقدیر کرتا ہوں
مجھے دیتی رہی ہے آج تک جس کی سزا دنیا
خدا جانے میں ایسی کون سی تقصیر کرتا ہوں
زمانے کی نگاہوں میں مرا یہ جرم ہے ساقیؔ
میں اپنے عہد کے حالات کی تفسیر کرتا ہوں