میں جہاں احتجاج کی نہیں ہوں

ایسے اندھے سماج کی نہیں ہوں

اچھے عیسی’ہو صاف کہتے ہو

میں کسی بھی علاج کی نہیں ہوں

پاس رکھ اپنے،، وصل ،، بھیک نہ دے

بھوکی ایسے اناج کی نہیں ہوں

کینہ رکھتی ہوں دل میں ،،انساں ہوں

میں خدا کے مزاج کی نہیں ہوں

عشق کی ایسی لت پڑی ہے کہ اب

میں کسی کام کاج کی نہیں ہوں

میں ہوں قائل سخن میں جدت کی

میں پرانے رواج کی نہیں ہوں

مجھ پہ اپنی مری حکومت ہے

میں ترے سامراج کی نہیں ہوں

بچپنے میں ہوا تھا عشق مجھے

میں جو پاگل ہوں آج کی نہیں ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]