میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری

اسے خبر ھی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری

میں چپ ھوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ھوئی

پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری

جو طعنہ زن تھا مری پوشش دریدہ پر

اسی کے دوش رکھی ھوئی قبا تھی مری

میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں

میں اس کو بھول گیا ھوں یہی سزا تھی مری

شکست دے گیا اپنا غرور ھی اس کو

وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری

کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ھی بدن

ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری

کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا

تو شہر عشق میں کیا آخری صدا تھی مری

جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ھے

اسی طرح کی تو مخلوق خاک پا تھی مری

ہر اک شعر نہ تھا درخور قصیدہ دوست

اور اس سے طبع رواں خوب آشنا تھی مری

میں اسکو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز

یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]