مجھ کو چھپا حروف کے آنچل میں شاعری

میں پھر شکستِ خواب کے صدمے سے چُور ہوں

بوسیدگی کی گرد اُڑا ، نرم پُھونک سے

میں باقیات ہائے گزشتہ غرُور ہوں

صفحاتِ دل پہ آخری تحریر مٹ گئی

عریاں کھڑا ہوا ہوں کہ بین السطُور ہوں

وہ شخص جذب ہو گیا دہلیز میں تری

شاید یہ میں نہیں ہوں جو تیرے حضُور ہوں

تختوں میں بٹ چکا ہے سفینہ یقین کا

تختوں پہ کیا فنا کے سمندر عبُور ہوں

آندھی کے بعد پھر نہ دکھائی دیے کبھی

ہونٹوں کی تتلیاں کہ سخن کے طیُور ہوں

تیری طرف بڑھا تو بہت پاس تھا ترے

اِک عمر چل چکا تو کڑے کوس دُور ہوں

میری بلندیوں کا صِلہ ، صرف سوز ہے

ائے محوِ آرزُوئے تجلی ، میں طُور ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]