مجھ کو ملے شکست کے احساس سے نجات

ائے کاش دستِ غم مرے پرزے اڑا سکے

دل کو سگانِ شہرِ ہوس نوچتے رہے

سادہ دلانِ عشق فقط مسکرا سکے

ائے کاش کہ فصیل بنے کربِ مرگِ دل

تو بھی مرے قریب جو آئے نہ آ سکے

جادو گرانِ شوق نے کر لی ہے خودکشی

کم بخت عمر بھر میں یہ کرتب دکھا سکے

ائے عشق، سر زمینِ وفا میں شگاف کر

جس میں مرے جنون کا لاشہ سما سکے

میں خال و خد کے رتبہِ اعلی سے گر گیا

وہ نقش بن چکا ہوں جسے تو مٹا سکے

آنکھوں سے جھانکتی ہے تری آتشیں جفا

کس کی مجال ہے کہ نگاہیں ملا سکے

جکڑآ ہوا تھا ظرف کی زنجیر نے جنہیں

جب سر قلم ہوا تو فقط کسمسا سکے

اڑنے لگے جو رنگ تو ایسے اڑے کہ اب

یوں ہے کہ روشنی بھی مرے پار جا سکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]