نعتِ حبیبِ پاک کا مجھ کو مذاق ہے
مجھ پر بھی فضلِ خالقِ نیلی رواق ہے
محبوبِ کبریا ہے امام الرسل ہے وہ
کیا عزّ و جاہ و منزلت و طمطراق ہے
وہ صادق الحدیث، ملقب بہ الامیں
دشمن بھی متفق ہیں عجب اتفاق ہے
وہ مصحفِ عظیم کہ اترا ہے آپ پر
اس میں شفائے دل ہے علاجِ نفاق ہے
تخلیقِ کائنات کا وہ نقشِ اولیں
دنیائے رنگ و بو کا سیاق و سباق ہے
اعجازِ یک اشارۂ انگشت دیکھنا
ماہِ منیر پر عمل انشقاق ہے
خلوت سرائے عرش میں یک شب وہ باریاب
روح الامیں کے ساتھ سوارِ براق ہے
کلمہ نہ اس نبی کا پڑھیں جو کہ عمر بھر
یومِ حساب ان کی سزا احتراق ہے
اس کی طرف سے آئے ذرا سوءِ ظن اگر
ایماں کی لذتوں سے یہ ایماں فراق ہے
در طاقِ دل نہیں ہے کتابِ ہدیٰ تیری
امت نے رکھ دیا اسے بالائے طاق ہے
صوم و صلوٰۃ ہے نہ ادائے زکوٰۃ و حج
ہر ایک چیز اب دلِ امت پہ شاق ہے
جیسے کہ اس کو یاد نہیں دارِ آخرت
دنیائے دوں سے عشق بحدِ مراق ہے
دیدارِ روضۂ نبوی کی سحر ہو اب
اب تو سوادِ ہجر میرے دل پہ شاق ہے
لکھ لکھ کہ نعت سب کو سناتا رہا نظرؔ
تیرے حضور پڑھنے کا اب اشتیاق ہے