نفسیاتِ طالبِ دیدار ، پیچیدہ سہی

دید کھوئی تو نہیں ہے آنکھ نم دیدہ سہی

ہنس دیا ہوں شوق کی کھلتی ہوئی اوقات پر

لاکھ موضوعِ شکستِ خواب سنجیدہ سہی

فرش میں دھنستے ہیں جیسے خوف کے مارے قدم

آخرِ امید کا عفریت خوابیدہ سہی

آج بھی آتا ہے دل معصومیت کے دام میں

رائیگانی ، اب بزعمِ خود جہاندیدہ سہی

حافظے پہ نقش ہے جزیات کی تفصیل تک

نکہتِ نوخیزِ شب کا روپ نا دیدہ سہی

سرسراتی ہیں ابھی تک آرزو کی چلمنیں

دودھیا ہاتھوں کے دو مخروط لرزیدہ سہی

شاعری سے آنچ اٹھتی ہے ترے انفاس کی

تُو بھلے اظہار کی پرتوں میں پوشیدہ سہی

داستاں سازی کے دکھ میں ساتھ کیا دیتا کوئی

داستاں گوئی کا ناصر ، شہر گرویدہ سہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]