نگاہوں میں چمکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

مرے دل میں دمکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

بہارِ جاں فزا کہیے نگارِ دل ستاں کہیے

خیالوں میں مہکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

ریاضِ جاں میں کھلتے ہیں حسیں موسم گلابوں کے

بہشت آثار لگتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

خدا کے نور کے جلوے فرازِ طور کے لمعے

بہ ہر لحظہ نکھرتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

طلوعِ فجر کا منظر جہاں بھر سے سہانا ہے

عجب صورت سنورتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

مہک اُٹھتی ہے جذبوں سے حرائے جاں کی تنہائی

بصد نکہت اُبھرتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

سرورِ قلب و سینہ ہے تجلّی ان فضاؤں کی

قرارِ جاں ٹھہرتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

جھڑی آنکھوں سے لگتی ہے گنہ کے میل دھلتے ہیں

کرم بن کر برستا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

اسی کی چھاؤں میں نوری پیامِ موت آ جائے

کہ دل بن کر دھڑکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]