نگاہِ لطفِ رب میری طرف ہے

نبی کی نعت سے مجھ کو شغف ہے

زمیں ہو یا فلک یا عرش و کرسی

ضیائے ماہِ بطحا ہر طرف ہے

رسائے عرشِ اعظم ہے وہی اک

اسی محبوبِ حق کا یہ شرف ہے

نہ ہو جس دل میں حبِ شاہِ بطحا

گلِ بے نم ہے پتھر ہے خذف ہے

ہے دنیا تنگ اب مسلم پہ شاہا

ستم ہائے زمانہ کا ہدف ہے

متاعِ گوہرِ ایماں ہے غائب

اب اس کا دل بلا گوہر صدف ہے

نہیں ذوقِ عبادت اس کے دل میں

مذاقِ لہو و رقص و چنگ و دف ہے

ہوا محروم خود حسنِ عمل سے

وہ بس اب داستاں گوئے سلف ہے

بجوفِ طاقِ نسیاں رکھ دیا ہے

نہیں قرآں سے تیرے اب شغف ہے

نہیں کچھ اکتسابِ فیض اس سے

اگر کچھ ہے تو بس کارِ حلف ہے

مسافر ہے مگر بے سمتِ منزل

رواں مثلِ خدنگِ بے ہدف ہے

ہے افسانہ مسلماں کی فتوت

جو تھا خنجر بکف ساغر بکف ہے

نظرؔ اعجاز یہ ذکرِ نبی کا

غم و اندوہِ دل سب برطرف ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]