نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے توبہ نہ دیکھوں گا

تقاضا لاکھ تو کر اے دل شیدا نہ دیکھوں گا

کروں ناصح میں کیونکر ہائے یہ وعدہ نہ دیکھوں گا

نظر پڑ جائے گی خود ہی جو دانستہ نہ دیکھوں گا

نگاہ ناز کو تیری میں شرمندہ نہ دیکھوں گا

ہٹائے لیتا ہوں اپنی نظر اچھا نہ دیکھوں گا

وہ کہتے ہیں نہ سمجھوں گا تجھے مجذوبؔ میں عاشق

کہ جب تک کوچہ و بازار میں رسوا نہ دیکھوں گا

بلا سے میں اگر رو رو کے بینائی بھی کھو بیٹھوں

کروں گا کیا ان آنکھوں کو جو وہ جلوہ نہ دیکھوں گا

بلا سے میرے دل پر میری جاں کچھ ہی گزر جائے

میں تیری خاطر نازک کو آزردہ نہ دیکھوں گا

اٹھاؤں گا نہ زانو سے میں ہرگز اپنا سر ہمدم

ارے میں اپنی آنکھوں سے انہیں جاتا نہ دیکھوں گا

حسینوں سے وہی پھر حضرت دل دیدہ بازی ہے

ابھی تو کر رہے تھے آپ یہ دعویٰ نہ دیکھوں گا

ذرا اے ناصح فرزانہ چل کر سن تو دو باتیں

نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوبؔ کا دیوانہ دیکھوں گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]