نہ ملے تم، تو ملا کوئی تمہارے جیسا

فائدہ عشق میں دیکھا ہے خسارے جیسا

موج اڑاتی ہوئی مخمور سمندر آنکھیں

ڈھونڈتی رہ گئیں اک شخص کنارے جیسا

عشق حیراں ہے ابھی پہلی نظر کے مانند

حسن ابھی تک ہے وہ خاموش نظارے جیسا

اک دھنک میرے تصور کو بنا رکھتا ہے

اُن لبوں پر جو تبسم ہے اشارے جیسا

وہ کہیں میرا تشخص نہ کچل کر رکھ دے

مہرباں ہاتھ جو لگتا ہے سہارے جیسا

دیکھئے کیسے گزرتی ہے شب تنہائی

سوزِ دل آج بھڑکتا ہے شرارے جیسا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]