وصل کو بھی نارسائی میں بدل خاموش باش

وصل کو بھی نارسائی میں بدل ، خاموش باش

یہ مدینہ ہے یہاں حیرت میں ڈھل ، خاموش باش

ساعتِ آخر میں آنا ہے انہیں بہرِ کرم

ایک لمحے کو سہی لیکن اجل ! خاموش باش

تُو جو الجھا ہُوا نُور و بشر کی بحث میں

یہ تری عقلِ زیاں کا ہے خلل ، خاموش باش

اُس درِ نازک پہ کس کو ہے مجالِ دَم زدن

لڑکھڑاتے شوقِ بے خود ! اب سنبھل ، خاموش باش

چل جہاں کچھ حاجتِ عرضِ نیازِ دل نہیں

خود کلامی ! منزلِ تسکیں کو چل ، خاموش باش

کار سازی کو بہت ہے بس خیالِ کار ساز

مشکلیں بے عرضِ غم ہوتی ہیں حَل ، خاموش باش

اُن کی مرضی کے مُکلف ہیں طلب کے سلسلے

اے مرے شوقِ ابد ، جذبِ ازَل ! خاموش باش

وہ خبر رکھتے ہیں پہیم گریۂ احساس کی

کرب یابِ ہجرِ وارفتہ علل ، خاموش باش

شافعِ محشر پہ ہے مقصودؔ بخشش کا مدار

جانتے ہیں وہ تری فردِ عمل خاموش باش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]