وہ بھی اب مجھ کو بہ اندازِ زمانہ مانگے

برسرِ عام محبت کا تماشا مانگے

جسے پندار مرے ظرفِ محبت نے دیا

اب وہ پہچان محبت کے علاوہ مانگے

میں تو اسرافِ محبت میں ہوا ہوں مقروض

دوستی ہر گھڑی پہلے سے زیادہ مانگے

راحتِ وصل بضد ہے کہ بھلا دوں ہجراں

چند لمحے مجھے دے کر وہ زمانہ مانگے

مدّتیں گذریں کئے ترکِ سکونت لیکن

آج بھی دنیا اُسی گھر کا حوالہ مانگے

میں جہاں کھویا تھا شاید کہ وہیں مل جاؤں

کوئی مجھ کو غم دنیا سے دوبارہ مانگے

بٹ چکی درد کی جاگیر مگر تیرا غم

دل میں ہر روز نیا ایک علاقہ مانگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]