وہ جو شبنم کی پوشاک پہنے ہوئے

وہ جو شبنم کی پوشاک پہنے ہوئے
زرد پتوں کے جسموں میں لہرا گئے
جن کے نقش کفِ پاک کی رعنائیاں
نسل آدم کو خاکِ شفا بن گئیں
عرشِ اعظم کی دہلیز کے اُس طرف
نام جن کا ازل ہی میں لکھا گیا
جو کتابِ جہاں کے سیہ حاشیے پر
اُجالوں کی رحمت رقم کر گئے
جن سے پہلے تھی ظلمت میں لپٹی ہوئی
غم زدہ زندگی
فکر جامد تمدن کے آثار مفقود تھے
نخلِ تہذیب پرایک وحشی خزاں کا اثر
قلبِ انسانیت
سسکیوں آنسوؤں اور زخموں کا بے نور گھر
ایسے عالم میں رب تعالیٰ کو پھر
اپنی مخلوق پر رحم آہی گیا

تاج رحمت کو سر پر سجائے ہوئے
پرچم عدل و احساں اُٹھائے ہوئے
وہ جو آئے تو عہدِ بہار آگیا
عشق کو جن کے دل کی شریعت کہیں
ذکر کو جن کے جاں کی عبادت کہیں
وہ حبیبِ خدا
احمدِ مجتبیٰ
اُن پہ قربان ہمارے تمہارے وجود
اُن پہ پیہم سلام
اُن پہ دائم درود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]