وہ حسن سراپا ہے، وہ مصدرِ رعنائی

میں عشقِ مجسم ہوں، میں چشمِ تماشائی

یہ قوتِ گویائی، یہ سوچ کی گہرائی

انساں کو ملی کیسی، دانائی و بینائی

جو چیز بھی پائی ہے، وہ در سے ترے پائی

لاریب تو آقائی، لاریب تو مولائی

ہیں مہر بہ لب کلیاں، ہیں پھول بھی افسردہ

غل ہے کہ بہار آئی، کیا خاک بہار آئی

اقرب ہے رگِ جاں سے وہ نورِ ازل لیکن

محرومِ تماشہ ہے ہر چشمِ تماشائی

کیا تجھ کو تامل ہے، ہو چہرہ نما اس میں

دل آئینۂ صافی اور گوشۂ تنہائی

محرومِ بصارت ہے، محرومِ بصیرت ہے

انسان کہ کرتا ہے، انسانوں پہ آقائی

جاں سوز ہے زخمِ دل، جینا بھی ہوا مشکل

کب کام مرے آئے گی تیری مسیحائی

محبوبِ نظرؔ ہو کر محجوب نظر ہے وہ

اے کاش ان آنکھوں کی کرتا وہ پذیرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]