وہی مومن جسے تو سب سے فزوں ہے یوں ہے

وہی عاقل ہے جسے تیرا جنوں ہے یوں ہے

قحط میں ذکر تِرا ابرِ کرم شاہِ اُمَم !

حَبس میں یاد تِری بادِ سکوں ہے یوں ہے

ساقیِٔ کوثر و تسنیم ! کوئی قطرۂِ وَصل !

دل جلانے کو مِرا سوزِ دروں ہے یوں ہے

والد و والدہ ، اولاد و جہانِ زر و سیم

مجھ کو ہر شے سے تِرا نام فزوں ہے یوں ہے

ہے حقیقت میں شہا ! تیری حقیقت کا وجود

اور باقی تو فسانہ ہے فسوں ہے یوں ہے

اِک تِری شان کا چرچا ہے سرِ بزمِ نُشور

اِک ترا نام پسِ کُن فیکوں ہے یوں ہے

نَفَسِ قلب پہ موقوف ہے جسموں کی حیات

رگِ عالم میں رواں آپ سے خوں ہے یوں یے

منزلِ اوجِ ترقّی ہے ترا نقش قدم

تیری سیرت کے سوا حال زبوں ہے یوں ہے

تیرے اِک وصف کی تشریح کو صدیاں بھی ہیں کم

کوئی کب تک کہے رتبہ تِرا یوں ہے یوں ہے

نَجم اور ناؤ کی الفت ہے مُعَظّمؔ لازم

سَقَفِ دین کا ہر ایک سُتوں ہے یوں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]