پختہ وہ راہِ محبت میں کہاں ہوتا ہے

جس کو کچھ وسوسۂ سود و زیاں ہوتا ہے

آہ کش ہے کبھی سرگرمِ فغاں ہوتا ہے

دل کی تقدیر میں آرام کہاں ہوتا ہے

وقت حیرت زدہ ٹھہرا کہ جہاں ہوتا ہے

شبِ اسرا جو کوئی عرش مکاں ہوتا ہے

عالمِ جذبِ تصور مرا سبحان اللہ

جیسے وہ سامنے بیٹھے ہیں گماں ہوتا ہے

زخمِ شمشیر و سناں ایک نہ اک دن بھر جائے

مندمل ہو نہ جو وہ زخمِ زباں ہوتا ہے

آدمی کاشفِ اسرارِ جہاں ہے لیکن

آپ خود اپنی نگاہوں سے نہاں ہوتا ہے

عمر کس طرح سے گزرے گی نظرؔ ایسے میں

شبِ تنہائی کا اک پل بھی گراں ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]