پھر کسی آئنہ چہرے سے شناسائی ہے

عاشقی اپنے تماشے کی تمنائی ہے

مہربانی بھی مجھے اب تو ستم لگتی ہے

اک بغاوت سی رَگ و پے میں اُتر آئی ہے

سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر

خاکِ تخریب میں پوشیدہ توانائی ہے

عصرِ حاضر کے مسائل ہوئے بالائے حدود

اب نہ آفاقی رہا کچھ، نہ علاقائی ہے

مسئلے دھرتی کے ہمزادِ بنی آدم ہیں

زندگی ساتھ میں اسبابِ سفر لائی ہے

شاعری صورتِ اظہارِ غمِ ذات نہیں

اپنی دنیا پہ مری تبصرہ آرائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]