پہاڑ، دشت، سمندر ٹھکانے دریا کے

زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے

کبھی سمندروں گہرا، تو ہے کبھی پایاب

بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے

سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں

مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے

نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب

ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے

بھنور کی آنکھ میں آنکھیں یہ ہم نے کیا ڈالیں

ہمی پہ جم گئے سارے نشانے دریا کے

ہمی کو رہنا ہے تشنہ کنارِ دریا پر

تمام جشن بھی ہم کو منانے دریا کے

لہو بہے کہ سیاہی فرات و دجلہ میں

مرے زوال کے قصے، فسانے دریا کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]