چھلکی جو مئے تو بن کے شرر گونجتی رہی

مینا سے تابہ ساغر زر گونجتی رہی

بادل کی سی گرج تھی یہ دنیا کہیں جسے

جو درمیانِ شمس و قمر گونجتی رہی

تھی جو دعا وہ ابر کے دامن میں چُھپ گئی

جو بددعا تھی بن کے اثر گونجتی رہی

آئی خزاں طیور تو جتنے تھے اُڑ گئے

نغموں سے پھر بھی شاخِ شجر گونجتی رہی

آغوشِ شب میں پھول تو مرجھا کے گر گئے

صحنِ چمن میں بادِ سحر گونجتی رہی

تھا کوئی اجنبی کہ جو آیا ، چلا گیا

صدیوں تلک اُسی کی خبر گونجتی رہی

فریادِ دل کسی کے دبائے نہ دب سکی

جب کٹ گئی زباں تو نظر گونجتی رہی

سمجھے تھے ہم خموش تھی اپنے قدم کی چاپ

کیا جانے کیوں یہ رہ گزر گونجتی رہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]