کائناتِ رنگ و بُو سے ہجر کا مشتاق ہوں

میں جنوں کی منطقوں کا عشق پر اطلاق ہوں

میں رخِ پُر نور ہائے حسن کا غازہ بھی ہوں

دوسری جانب ، نگاہِ حیرتِ عشاق ہوں

عین ممکن ہے کہ ان پر لب کشائی بھی کروں

میں ابھی جن الجھنوں پہ محوِ استغراق ہوں

موجزن فکرِ رساء میں ہے نمُو کا معجزہ

میں بھلے دشتِ زیاں میں ریت کے مصداق ہوں

ہیں مری تحریر، چاہے حرف ہوں تمہید کے

یا تمہاری داستاں کے آخری اوراق ہوں

رقص شامل فطرتِ رقاصہِ وحشت میں ہے

لوگ چاہے ناشناسی کے ہنر میں طاق ہوں

آ مری بانہوں میں ، مجھ کو بھولنے کے واسطے

صرف میں ہوں جو کہ اپنے زہر کا تریاق ہوں

میں زمیں پر بھی نیابت میں رہا ناکام ہی

جائیدادِ خلد سے تو عمر گزری عاق ہوں

فیصلے کے وقت ناصر حافظے سے مِٹ گئے

وہ بقاء کے درس ہوں یا ہست کے اسباق ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]