کافی ہیں خلاصی کو سرِ حشر یہ نعمات

لکھتا ہوں سرِ نامہ تری نعت تری بات

ہر ایک زمانے میں رہا ذکرِ محمد

ہر مطلعِ مصحف سے نمایاں ہے تری ذات

ترتیل سے کھلتے رہے گلہاے عقیدت

اک جذب میں جب بھی پڑھیں قرآن کی آیات

مازاغ کے سرمے سے مزین ہیں وہ آنکھیں

اور زلفِ منور سے چلی نور کی برسات

خوش بخت ہیں سب راہِ درودی کے مسافر

انساں ہوں کہ جنات و جمادات و نباتات

اک میم ہی لکھا تھا تری مدح میں آقا

یک لخت سجی قوسِ قزح بر سرِ صفحات

اک مژدۂ جاؤک سے ڈھارس ہے سرِ حشر

اُنظُر کے وظیفے سے ہیں مملو مرے جذبات

ساقط ہوئی جاتی ہے مرے دل کی یہ دھڑکن

میں پیشِ مواجہ ہوں لیے نعت کی سوغات

حاضر ہے بہ صد شوق تہی دست یہ منظر

احرامِ ثنا باندھے ہوئے بر سرِ میقات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]