کانٹا ہے اور گلاب پہ انگلی اٹھائے گا ؟

یعنی تو میرے خواب پہ انگلی اٹھائے گا ؟

اپنی اداسیوں کا مت الزام اس پہ ڈال

ہر شخص ماہتاب پہ انگلی اٹھائے گا

پھر امتحان عشق کا منکر کہیں گے لوگ

تو بھی اگر چناب پہ انگلی اٹھائے گا

ایسا اصول مجھ کو ہے ہرگز نہیں قبول

اچھا ہے جو ، خراب پہ انگلی اٹھائے گا

پھر میں اسے بتاوں گی کیوں برتا اجتناب

جب میرے اجتناب پہ انگلی اٹھائے گا

شائد یہ پیاس کر چکی صحرا کا دل اچاٹ

یہ دشت ابر و آب پہ انگلی اٹھائے گا

کومل اٹھیں گی انگلیاں اس کی طرف بھی تین

جو میرے اضطراب پہ انگلی اٹھائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]