کربل کی فضا کہتی ہے شبیر ، اماں ہو
مقتل کی بڑھا آئے ہو توقیر ، اماں ہو
حلقوم علی اصغر معصوم سے نکلا
بدلے میں فقط پیاس کے ، اک تیر ، اماں ہو
عباس علمدار ترے سامنے دریا
شرمندہ ہے ، مدت سے ہے دلگیر ، اماں ہو
زینب کی صداؤں سے ابھی گونج رہی ہے
کربل کی فضا اب بھی ، مرے ویر ، اماں ہو
اے رسم عزا تیری رہے خیر ہمیشہ
اے پشت پہ پڑتی ہوئی زنجیر ، اماں ہو
محسوس تو کر تو بھی غم فاطمہ زہرہ
چیخے گا تری آنکھ کا ہر نیر ، اماں ہو