کربل کی فضا کہتی ہے شبیر ، اماں ہو

مقتل کی بڑھا آئے ہو توقیر ، اماں ہو

حلقوم علی اصغر معصوم سے نکلا

بدلے میں فقط پیاس کے ، اک تیر ، اماں ہو

عباس علمدار ترے سامنے دریا

شرمندہ ہے ، مدت سے ہے دلگیر ، اماں ہو

زینب کی صداؤں سے ابھی گونج رہی ہے

کربل کی فضا اب بھی ، مرے ویر ، اماں ہو

اے رسم عزا تیری رہے خیر ہمیشہ

اے پشت پہ پڑتی ہوئی زنجیر ، اماں ہو

محسوس تو کر تو بھی غم فاطمہ زہرہ

چیخے گا تری آنکھ کا ہر نیر ، اماں ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

شاہِ جوانانِ خلُد

شاہِ جوانانِ خلُد، بادشہِ مشرقَین لختِ دلِ مُصطفٰے یعنی ھمارے حُسَین اُن کا مکمل وجُود نُورِ نبی کی نمُود اُن کا سراپا تمام عشقِ حقیقی کی عَین ماں ھیں جنابِ بتُول، بنتِ رسولِ کریم باپ ھیں شیرِ خُدا، فاتحِ بدر و حُنَین اُن کا امَر مُعجزہ سوز و غمِ کربلا آج بھی ھے گریہ ناک […]

تُم ہو معراجِ وفا ، اے کشتگانِ کربلا

ورنہ آساں تو نہیں تھا امتحانِ کربلا ہر کہانی جس نے لکھی ہے ازل سے آج تک وہ بھی رویا ہو گا سُن کر داستانِ کربلا دودھ کی نہریں بھی قُرباں ، حوضِ کوثر بھی نثار اِک تمہاری پیاس پر ، اے تشنگانِ کربلا کتنا خوش قسمت ہے میرا دل بھی ، میری آںکھ بھی […]