کرم کریم کا اچھے سمے میں رکھتا ہے

غلام زاد کو پیہم مزے میں رکھتا ہے

پکارتے ہیں ترے خواب نیند کی جانب

وفورِ عشق مجھے رتجگے میں رکھتا ہے

سوائے نعت کوئی بات سوجھتی ہی نہیں

جمالِ شاہ اسی دائرے میں رکھتا ہے

درونِ قلب مہکتا ہے مثلِ مشکِ ختن

خیالِ شاہ بڑے فائدے میں رکھتا ہے

خیال ورد کے لمحے رہا مواجہ کا

درودِ پاک مجھے رابطے میں رکھتا ہے

اسے شہانِ جہاں پر ہے فوقیت حاصل

جو ان کا طوقِ غلامی گلے میں رکھتا ہے

وہی بناتا ہے اشفاق لفظ کو مدحت

جو میرے حرف کو اک ضابطے میں رکھتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]