کرے مدحت وہ آقا کی جسے ان سے عقیدت ہے
ثنا خوانی کرے گا کیا جسے جنت کی چاہت ہے
کرم مالک کا ہے جس نے بنایا امتی ان کا
جنہیں امت ہے پیاری اور ہر دم فکرِ امت ہے
مہِ میلاد آیا لے کے خوشیاں اپنے دامن میں
منائیں جشن مل کر آپ کا یوم ولادت ہے
نسیما ! جانب بطحا گزر ہو گر تو کرنا عرض
کہ شوق دید میں بیتاب دل دن رات تڑپت ہے
خرد مندوں سے کہہ دو اہل دل یہ صاف تم جا کر
وہ مومن ہی نہیں جس دل میں آقا سے کدورت ہے
مرے بھی درد دل کا کچھ مداوا کیجیے آقا
مجھے بھی تو علاجِ دردِ دل کی اب ضرورت ہے
سنور جائیں گے دنیا اور عقبیٰ وارثیؔ سب کے
کریں وہ کام سارے جو مرے آقا کی سنت ہے