کس قدر ہے دلنشیں اور جاں فزا مت پوچھیے

اس دیارِ نور کا گنبد ہرا مت پوچھیے

کیا نظارہ تھا کہ جب اک ہالۂ رحمت میں تھے

سیدہ حسنین اور شیرِ خدا مت پوچھیے

کارِ مدحِ مصطفیٰ سے بات میری بن گئی

دستِ آقا سے مجھے کتنا ملا مت پوچھیے

بھیجیے اپنے کریم آقا پہ روز و شب درود

اور درودِ پاک پڑھنے کی جزا مت پوچھیے

بس ارادہ کیجیے کہ نعت لکھنا ہے مجھے

کس طرح طرزِ سخن ہو گی عطا مت پوچھیے

چند گھڑیاں وہ جو گزریں تھیں حرم کے صحن میں

کس بلندی پر تھا یہ بختِ رسا مت پوچھیے

کس طرح یکبارگی ہو گا ہر اک دل پُر سکوں

حشر میں جب ہوں گے وہ جلوہ نما مت پوچھیے

دیکھ کر ماہِ ربیع النور کا ماہِ حسیں

ہجر کیوں اس دیدۂ نم سے بہا مت پوچھیے

دیکھ کر وہ گنبدِ سر سبز اپنی آنکھ سے

یک بہ یک کیوں دل دھڑکتا رک گیا مت پوچھیے

کوئی حجت مت کریں منظر ہے عبدِ مصطفٰی

کیوں سجا رکھتا ہے سر پر نقشِ پا مت پوچھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]