کس نفاست سے اور قرینے سے

رات اتری فلک کے زینے سے

ساحلی بستیوں کا شورہیں ہم

دور ہو جائیں گے سفینے سے

جھڑ گئے زندگی کی پائل سے

ہائے کیا لوگ تھے نگینے سے

چاک وحشت کے بھر نہیں پائے

تُو ابھی جھانکتا ہے سینے سے

چشمِ حیراں میں خواب کے سوتے

سوکھ جاتے ہیں اشک پینے سے

کانچ کے ٹوٹنے کا چھناکا

چیخ ابھری ہے آبگینے سے

عشق تنہا نہیں ہے مدفن میں

دل بغل گیر ہے دفینے سے

اور ، ائے سر بسر مسیحائی

جی اگر بھر گیا ہو جینے سے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]