آہستگی سے شیشہِ دل پر خرام کر
میرا نہیں تو عشق کا ہی احترام کر
ہے ماوراء بیاں سے مرا آٹھواں سفر
ائے داستان گو ، مرا قصہ تمام کر
میں تو اٹک کے رہ گیا نصف النہار پر
گردش زمین کی ہی بڑھا اور شام کر
رشکِ مطالعہ ، مجھے بین السطور پڑھ
ائے نازِ گفتگو ، مری چپ سے کلام کر
میں آسماں بدوش کھڑا ہوں ترے لیے
دھرتی پہ لوٹ جا مرے دامن کو تھام کر
لایا ہوں خام عہد میں خالص اُداسیاں
آ ، ائے عروسِ شعر ، مرا فیض عام کر
درکار ہے جہاں میں گزارے کا حوصلہ
میں نے یہ کب کہا کہ جہاں میرے نام کر
اس شہرِ سنگ و ریگ میں ممکن کہاں نمو
ائے دردِ بارور ، مرے دل میں قیام کر
شاخِ گلوئے خواب تو لہجے نے کاٹ دی
عریاں بدن کی تیغ کو چاہے نیام کر
مہماں ہوں ایک پل کا بھلے ، کارواں سراء
اب آ کھڑا ہوا ہوں تو کچھ اہتمام کر