دل کے ہر موڑ پہ طوفان نہاں ملتے ہیں
ہر قدم پر تری یادوں کے نشاں ملتے ہیں
معلیٰ
ہر قدم پر تری یادوں کے نشاں ملتے ہیں
ہم خدائے بہار ہوتے تھے
کوششِ ضبط پہ بھی آہ نکل جاتی ہے پھر پلٹ کر نہیں آتی یہ سمجھ لے پیارے دل سے اک بار اگر چاہ نکل جاتی ہے
ہائے کیا زندگی ہماری ہے
لیکن تمہاری یاد ہے دل میں بسی ہوئی
پھر چمک اٹھیں نہ اس ظالم کو ہنستا دیکھ کر
لیے بیٹھا ہے متاعِ غمِ پنہاں کوئی فکرِ پوشیدگیِ راز میں ہیں دیوانے سی رہا ہے کوئی دامن تو گریباں کوئی
وہ بھی غریب دل کی طرح بے زبان ہے
دلِ مرحوم یاد آتا ہے اس کی محفل میں یارب ہے دل شاد جاتا ہے ، شاد آتا ہے
یہ ان قدموں کی آہٹ ہے یا دل میرا دھڑکتا ہے