بات دل کی نہ کبھی ختم ہوئی
بات میں بات نکلتی آئی
معلیٰ
بات میں بات نکلتی آئی
لیـکن ، اِسے بازار بنانے سے رہا مَیں
بیٹھے ہوئے تھے وہ دلِ خانہ خراب میں
ایسے بھی کچھ درخت مسافر نواز ہیں
یہ کس منزل میں لے آئیں مجھے گمراہیاں میری
ترکشِ ناز میں کیا اور کوئی تیر نہیں
ہے کس کی آستین میں خنجر ، تلاش کر
یہ کام بھی خاصانِ حرم کرتے رہیں گے ہم دل کے مہکتے ہوئے زخموں کے سہارے تاریخ تبسم کی رقم کرتے رہیں گے
لیکن دل و نظر کو کشادہ بنائیے
دل کے تو یہ دو ہی خانے ہوتے ہیں