یہ بھی کیا طرزِ دلربائی ہے
دل کی فریاد دلربا نہ سنے
معلیٰ
دل کی فریاد دلربا نہ سنے
سیکھو ابھی طریقے کُچھ روز دلبری کے آئے اگر قیامت تو دھجّیاں اُڑا دیں پھرتے ہیں جستجو میں فتنے تری گلی کے
چیز رکھتا ہوں بھول جاتا ہوں
تیرے خیال نے مگر رات رُلا رُلا دیا
یار کے دل میں غبار آ ہی گیا
برف میں دل لگا کے دیکھ لیا
پہلو میں میرے آؤ تو کہہ دوں یہاں ہے اب
تڑپ بڑھ کر میری وجہِ سکون دل نہ بن جائے
سامانِ وحشتِ دلِ بیتاب آ ہی گیا
ایک ہلچل سی مچی رہتی ہے جب دل کے قریب اپنی کوتاہیٔ دانش کا گلہ کیا کیجیے بارہا ہم بھی گئے تھے درِ زنداں کے قریب