دل ہو بیدار تو انسان سمجھ سکتا ہے
قوتیں اور بھی ہیں دولت و ثروت کے سوا
معلیٰ
قوتیں اور بھی ہیں دولت و ثروت کے سوا
زندہ دل ہنستے ہنستے گذر جائیں گے موت سے بھی مریں گے نہیں زورؔ ہم زندگی میں جو کچھ کام کر جائیں گے
پہلے الفت تھی، اب اُداسی ہے
زخمی جو ہو چُکا ہو کسی کی نگاہ کا
دل کے باہر بھی کوئی تیرے برابر نہ ہوا
تم کہو تو یہی دو نیم کیئے دیتے ہیں
مُدّت اب چاہیئے اس شہر کو بستے بستے
زباں پہ ناز تھا جن کو، وہ بے زباں نکلے
اور کچھ ہو گا جسے دل کا دُھواں لکھتے ہو
سکونِ دل نہ ہوا میسر زمانے میں نصیر ،زیست بڑی بے قرار گزری ہے