جو راہِ حق سے طبیعت کبھی بھٹکتی ہے

مثالِ خار کوئی دل میں شے کھٹکتی ہے جہاں بھی دیکھیے انسانیت سسکتی ہے رُخِ حیات سے حسرت سی اک ٹپکتی ہے جو محوِ خواب تھے دنیا سے ٹھوکریں کھائیں کھلی جو آنکھ تو دنیا ہمیں تھپکتی ہے جو سوچتا ہوں کہ تعمیرِ آشیاں کر لوں معاً خیال میں بجلی سی اک چمکتی ہے اٹھا […]

جہاں میں جنسِ وفا کم ہے کالعدم تو نہیں

ہمارے حوصلۂ دل کو یہ بھی کم تو نہیں ہم ایک سانس میں پی جائیں جامِ جم تو نہیں سرشکِ غم ہیں پئیں گے پر ایک دم تو نہیں تمہارے قہر کی خاطر اکیلے ہم تو نہیں نگاہِ مہر بھی ڈالو تمہیں قسم تو نہیں خدا کا گھر ہے مرا دل یہاں صنم تو نہیں […]

خرد کا جامہٴ پارینہ تار تار نہیں

جنونِ عشق ابھی تجھ پہ آشکار نہیں ہمارے ذوقِ طلب میں نہ فرق آئے گا وہ ایک بار کہے یا ہزار بار نہیں بہ طرزِ عام نہیں میری بادہ آشامی رہینِ بادۂ باطل مرا خمار نہیں رہِ طلب کے مصائب بھی عین راحت ہیں گلِ مراد سے وابستہ خار خار نہیں تمہارے وعدوں پہ دل […]

خلش کی بڑھ کے دردِ بیکراں تک بات پہنچی ہے

محبت کی ذرا دیکھیں کہاں تک بات پہنچی ہے نکل کر آہِ دل میری سرِ عرشِ بریں پہنچی درونِ دل سے چل کر آسماں تک بات پہنچی ہے جو منزل تک پہنچ کر اُف پلٹ آیا ہے منزل سے اسی گم کردہ منزل کارواں تک بات پہنچی ہے نگاہیں بار بار اٹھتی ہیں سوئے آسماں […]

دل تری یاد سے کس رات ہم آغوش نہیں

نیند آتی مجھے کس وقت ہے کچھ ہوش نہیں رندِ شائستہ ہوں میں رندِ بلا نوش نہیں ہیں مرے ہوش بجا تیرے بجا ہوش نہیں شاخِ نخلِ چمنستاں ابھی گل پوش نہیں دیکھنا رنگِ بہاراں کا ابھی جوش نہیں نگہِ ساقیِ گلفام کہ ہے ہوشربا کون ایسا ہے سرِ بزم کہ مدہوش نہیں سحر انگیزی […]

دل میں یادِ صنم ارے توبہ

کفر اور در حرم ارے توبہ صبحِ خنداں کو دل ترستا ہے ظلمتِ شامِ غم ارے توبہ مے ہے ساقی ہے ابر ہے لیکن توڑیں توبہ کو ہم ارے توبہ زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں غم ہی غم، غم ہی غم ارے توبہ بجھ نہ جائے چراغ یہ دیکھو لو ہے ایماں کی کم […]

رنگِ چمن میں اب بھی ہے حسنِ دلبرانہ

دل کی روش ہے لیکن گلشن سے وحشیانہ باران و بادِ صر صر، برقِ تپاں شبانہ سو طرح کے مصائب، اک شاخِ آشیانہ دورِ وصالِ جاناں، دورِ فراقِ جاناں وہ زندگی حقیقت، یہ زندگی فسانہ کیفِ وصال تیرا، دردِ فراق تیرا پیغامِ زندگی وہ، یہ موت کا بہانہ محوِ خرامِ گلشن تجھ کو خبر نہیں […]

زندگی پائی ہے ان سے لو لگانے کے لیے

دل ملا زیرِ قدم ان کے بچھانے کے لیے اک ہمیں کیا رہ گئے بس آزمانے کے لیے اور دنیا بھی تو ہے تیرے ستانے کے لیے یہ شبِ ہجراں تو آئی ہے نہ جانے کے لیے دوستو آنا مری مٹی اٹھانے کے لیے حرص کی عادت نہ چھوٹی سبحہ گردانی میں بھی دستِ زاہد […]

ستم کی خو نہیں تم میں تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

نہ مطلب چھیڑ ہو دل سے تو آخر دل ستاں کیوں ہو وہ تجھ سے سرگراں کیوں ہو نصیبِ دشمناں کیوں ہو ہمیشہ خوش گمانی چاہیے تو بد گماں کیوں ہو نہیں کہنے کی عادت جس کو پڑ جائے تو ہاں کیوں ہو سمجھ لے آدمی فطرت تو پھر دل پر گراں کیوں ہو نہ […]

صبا ہے، گل ہیں، سبزہ زار بھی ہے

ہو دل غمگیں تو سب بیکار بھی ہے نہاں ہے اور جلوہ بار بھی ہے وہ ظاہر ہو کے پراسرار بھی ہے محبت کیف زا اور شعلہ ساماں محبت نور بھی ہے، نار بھی ہے بڑے مجرم ہیں ہم مانا یہ لیکن سُنا ہے وہ بڑا غفار بھی ہے نہیں شیوہ کروں میں ترکِ دنیا […]